ھریانہ کچھ عرصہ پہلے تک صوبہ پنجاب کا ھی حصہ اور ڈویژنل ھیڈ کوارٹر تھا۔ اور موجودہ ھریانہ کے کچھ علاقے انبالہ ڈویژن میں شامل تھے۔
تاریخ گواہ ھے کہ زمانہ قدیم میں ھندوستان پر حکمرانی کا حق صرف کھشتریوں(راجپوتوں)کا تھا۔ کم وبیش 500 ریاستوں پر راجپوتوں کی حکومت رھی۔ اور راجپوتوں کی مختلف گوتوں کے راجے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر راج کرتے رھے۔
ھمارے ھاں المیہ یہ ھے کہ ھم اپنے تئیں فلسفی بن کر اپنے علم سے زیادہ کسی تاریخ کو یا روایت کو ماننےکیلئے تیار نہیں۔ اورکھینچ کھانچ کر کچھ قومی معاملات میں "زبان" کو گھسیٹ کر لے آ تے ھیں۔
میں نےاپنے اکثر ھریانوی راجپوتوں کو دیکھا سنا ھے کہ وہ اکثر کہتے ھیں کہ یاروہ تو پنجابی بولتا ھےاسلیے مجھے راجپوت نہیں لگتا۔عین اسی طرح کچھ پنجابی راجپوت یہ کہ رھے ھوتے ھیں کہ
"یار وہ تو رانگھڑ ھے." "تنے منے" بولتا ھے۔ مجھےتو راجپوت نہیں لگتا۔
تو احباب سنیے کہ زبان کاتعلق کسی علاقہ سے ھوتا ھے،کسی مخصوص قوم یاذات کی زبان نہیں ھوتی۔
اب ھریانہ کے مخصوص علاقوں میں ھریانوی مختلف لہجوں میں بولی جاتی تھی "بانگر" والے "سے" اور "کت "کی زبان بولتے تھے اور بولتے ھیں اور "نردک" والے" کڑا" اور "کنگا" کی زبان بولتےتھے اور بولتے ھیں۔ گڑگاوں والے علاقہ میوات سے قریب ھونے کے سبب میواتی زبان کے لہجہ میں ھریانوی بولتے ھیں اور سابقہ ھریانہ کے علاقہ انبالہ اور قریبی علاقہ پٹیالہ، لدھیانہ اور جالندھر وغیرہ کے لوگ پنجابی کے ساتھ مکس ھریانوی بولتے تھے اور بولتے ھیں ۔
بلکل اسی طرح ھریانہ میں رھنے والی دیگر ذاتیں جن میں جاٹ، مغل، سقے، تیلی،جولاھے، چوڑھے، چمار سنار،نائی ، دھوبی،موچی اور جوگی سب ھی ھریانوی بولتے تھےاور بولتے ھیں تو کیا ھم ان سبھوں کو محض ھریانوی زبان بولنے پر راجپوتی کا سرٹیفکیٹ دے دیں گے۔ زبان ھمیشہ علاقہ کی ھوتی ھے۔ اب راجپوت تو نیپال، سری لنکا، بنگال، کشمیر اور پوٹھوہار کے علاقوں میں بھی ھیں اوروہ ھریانوی یا پنجابی زبان اور کلچر کےپیروکارنہیں توکیا ھم ان کو راجپوتی سے نکال دینگے ، زبان کسی خاص قوم یا ذات کی میراث ھرگز نہیں ھوتی۔
ھمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاھیے۔فرض کیا کہ ھم صرف ھریانہ والوں کو اصل کھرا راجپوت سمجھتے ھیں تو باقی پورے ھندوستان پر حکمرانی کون کرتا رھا ھے؟ کیا وہ جو پنجاب میں حکمران تھے، ۔کھشتری نہیں تھے؟
جبکہ اس زمانہ میں تو کھشتریوں کے علاوہ کوئی حکومت کا حقدار ھی نہیں تھا۔ اسی طرح ھمارے پنجابی راجپوت بھائیوں کو بھی سوچنا چاھیے کہ وہ ھریانوی بھائیوں کو اپنا سمجھیں کہ وہ بھی کبھی ھریانہ اور دیگر ریاستوں کے حکمران رھے ھیں ۔
کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھائی توانکی جانب سے اگلا سوال آ گیا۔ کہ پھر ھریانہ والے پنجابی راجپوتوں سےرشتہ داری کیوں نہیں کرتےحالانکہ آج کل کر بھی رھے ھیں۔ انکےعلم میں نہیں شاید
اس کی وجہ یہ ھے کہ ھریانہ والے ھریانہ والوں میں ھی شادی کرتے تھے اور کرتے ھیں۔
ھریانہ میں چند گوتوں کے راجپوت آباد تھے۔ چوھان، مڈاڈھ، پنوار، تنور،جاٹو، پنڈیر، وریاہ، تاؤنی، راگھو اور بھٹی وغیرہ وہ قریبی علاقوں میں نائیوں یا بھاٹوں کے ذریعہ رشتے کرتے تھے۔ نائی ھریانہ سے باھر دور دراز علاقوں میں نہیں جاتے تھے اور بھاٹوں سے کھرے ھاڈ کی تصدیق کر کے وہ لوگ رشتہ داری کروا دیتے تھے ایک گوت والےعمومآ اپنی ہی گوت میں رشتہ نہیں کرتے تھے اور اس کو معیوب سمجھتے تھے۔
جو کسی بھی گوت کا راجپوت کسی غیر راجپوت میں شادی کر لیتا اسے راجپوت گاؤں کمیونٹی سے نکال دیتے تھے۔
اس وقت کچھ راجپوت گوتوں نےجاٹوں اور دیگر قبائل میں شادیاں کیں، تو باقی راجپوتوں کی طرف سے ان کو اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا۔
پھرھندوستان پر بیرونی حملہ آور آئے عرب، مغل، افغانی ، انگریز اور پتہ نہیں کون کون ؟ راجپوتوں کا زوال ھوا اس وقت کچھ نام نہاد راجپوتوں نے اپنے مفاد کیلئے بیرونی عناصر کا ساتھ دیا۔ اور دوسرے طبقہ نے جیتے دم تک بیرونی عناصر کے پاؤں نہیں لگنے دئے اس میں ھریانوی راجپوتوں کا کردار بہت زیادہ ھے۔
اسلئے کہ تمام بیرونی فاتحین کواصل مذاحمت ملی تو پانی پت ھریانہ میں ھی ملی اور سب سے زیادہ رگڑا بھی انھی کو لگا کیونکہ یہ تاج دلی کے راستہ میں پڑتے تھے اور سب سے زیادہ اکڑ خان بھی تھے۔پنجابی راجپوتوں کے بھی دو طبقات بنے ایک طبقہ نے مراعات کے بدلے بیرونی عناصرسےبھرپور تعاون کیا، مخبریاں کیں زمینیں جائیدادیں بنائیں بیرونی آ قاوں سے رشتہ داریاں کرکے خطابات لئے اور اپنی راجپوتی کو سستے داموں بیچا ۔ اور ایک دوسراطبقہ کہ جس نے لڑائی کہ مذاحمت کی اور بھاری نقصان اٹھایا۔ کچلے گئے پر راجپوتی پر آ نچ نہ آنےدی۔ ان دونوں طبقات میں ھریانہ اور پنجاب کےمشترکہ ھیروز ھیں۔ دلا بھٹی اور احمد خان کھرل راجپوتوں کے ھیروز ھیں مگر افسوس کہ آج ان کی اولاد ھونے کےدعویدار جاٹ کہلوانے پر مصر ھیں۔ ھریانہ اور گردونواح کے راجپوت راجاؤں نے بھر پور مزاحمت کی۔
رانا پرتاپ سنگھ ، موھن سنگھ مڈاڈھ ھریانہ میں راجپوتی کاز کے ھیرو ھیں۔
پھر راجپوتوں پر مذھب کی تبدیلی کےاثرات بھی ھوئے ھریانہ اور پنجاب کےکچھ راجپوت مسلم مبلغین کی وجہ سے مسلمان ھوئے تو کچھ کو زبردستی مسلمان کیا گیا۔ وہ ایک الگ کہانی ھے۔ مگر ھریانہ اور پنجاب میں اسکے اثرات یہ ھوئے کہ ھندو پرم پرا کے برعکس انہوں نے اسلامی اصولوں کے تحت غیر اقوام کے اندر بھی شادیاں شروع کر دیں۔
وھاں سے کچھ ٹھیٹھ راجپوتوں نےاس عمل کو راجپوتی کیلئے اچھا نہ سمجھا اور یہ اس طرح کے مسائل پیدا ھوئے۔
اب ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم ایک دوسرے کوغیر اور گھٹیا راجپوت ثابت کرنے کے بجائےاصل شجرہ بردار راجپوتوں کوتسلیم کر کے اتحاد کی طرف قدم بڑھائیں۔ ھم دونوں طبقات کی صفوں میں گھسنے والے نئے نویلے جعلی راجپوتوں کو نکال باھر کریں۔
جب سے پاکستان بنا ھے ھم سیاسی طور پر بھی متحد نہیں ھو سکے اور فیروز خان نون اور بھٹو کے علاوہ کوئی راجپوت حکمران نہ آسکا۔ ھم غیر کھشتری اقوام کے غلام ھیں کبھی جاٹ تو کبھی ارائیں،ھم سب کی نا اتفاقی سے فائدہ اٹھا کر ھم پہ مسلط ھیں۔ ھمیں جلد از جلد ھریانوی اور پنجابی اختلاف سے نکل کر "راجپوت پولیٹیکل پارٹی" کی بنیاد رکھنی چاھئیے اور کھشتری حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنا چاھئیے۔ اسی طرح عسکری اداروں میں بھی ھمارا آبائی حق ھے۔ راجپوت کا تو یہی پیشہ تھا۔
اپنا قدیمی کردار بحال کرنا چاھئیے ادھر سب سقہ نما سپہ سالار بن کر چمڑے کا سکہ چلا رھے ھیں۔ ھاں یاد آیا کہ جب کریڈٹ لینے کاوقت ھو اور نشان حیدر کی بات چلے تو سب ھریانوی بھی کہتے ھیں " ماھرے راجپوتاں کے 8 تو نشان حیدر ھیں حالاں کہ نشان حیدر تو صرف پنجابی راجپوت بھٹی ،منہاس، اور جنجوعے ھیں ۔ ابھی تک کوئی ھریانوی نہیں ھے۔
ھریانوی راجپوت
• چوھان
• تنور ،طور
( جاٹو اور راگھو اسکی برانچز ھیں)
• پنوار • منڈاھڑ
• پنڈیر• وریاہ، براہ
• چنڈیل ( اجکل کشمیر میں ھیں)
• تاؤنی ( انبالہ اور پٹیالہ میں بھی)
•پنجابی راجپوت
• تُنور، تومار،طور (ھریانہ میں بھی تھے)
پٹھانیہ، جاٹو، جانگڑا،
راگھو، جارائتا۔ یہ سب تنور کی برانچز ھیں۔
• کھوکھر۔
( جاٹوں میں مکسڈ ھیں اور غیر راجپوتوں میں شادیاں بھی کرتے ھیں)
بندیال، بھچر، گنجیال، جسوال سب کھوکھر ہیں۔
• پنوار
( ھریانہ میں بھی تھے اور یہ گوت جاٹوں میں بھی ھے۔ )
راندو، وسیر، کورڑ ،
پھلروان، پترا، ہنجرا
ڈوگر ، بھوڑ ، سیال
ڈھڈی، مہندرا ، نارمہ
کاٹھیا، ٹوانہ، گھیبہ، سردے، جگدے، سوڈھا، ٹکا، سومرو، میکن، جسرا، سانکھلا، سگرا،سمپل، بھابھا۔
یہ سب پنوار راجپوت ھیں۔
• چوھان۔
( ھریانہ میں بھی تھے اور یہ گوت جاٹوں میں بھی ھے ) ۔
کھچی، موہل، سہو
بھگوڑ، سکھیرا، سرویا، ڈاھا، بھالیکے، مڑل، بھدوریہ، قائم خوانی، خانزادہ، ڈاھر، لوھانہ،
یہ سب چوھان راجپوت ھیں۔
• بھٹی، بھٹو، بھاٹی،
( ھریانہ میں بھی تھے جاٹوں میں بھی ھیں) بھٹ، وٹو، نون ،کانجو
کلیار، کلو، نیپال۔ انہڑ منگریو، سموں، ابڑو، اوڈھو،بھوٹانی، پیچوھو،
کھوڑو، جونیجو، پھل پوٹو، برار، گھمن، کانجو، اتراء، نون، ڈھانڈلہ، بھابھہ، ڈیال، حطار۔
یہ سب بھٹی راجپوت ھیں.
• جوئیہ۔
(پنجابی راجپوت کچھ ھریانہ میں بھی تھے۔)
• جنجوعہ
( پنجابی راجپوت)
( کھکھ انکی برانچ ھے)
• وریاہ، بریاہ، براہ
(ھریانہ میں بھی تھے انبالہ، پٹیالہ پنجاب میں بھی )
• کوشل (گھوڑے واہ)
(پنجابی راجپوت انبالہ، ھوشیارپور میں تھے۔)
• راٹھور
(ھریانہ میں بھی تھے کشمیر اور پوٹھوہار میں ھیں)
• سولنگی (چالوکیہ)
(راجھستان اور سندھ میں ھیں)
• جھورڑ • جسروٹیہ
• مہار • وینس
• پریہار ( راجھستان)
• سلہریا • منگرال
• چب ( آزاد کشمیر)
• تھکیال• بھٹہ• لنگاہ
• ٹوگرہ • جودھرا
• لنگڑیال • نارو
• بگھیلا • کھرل
تحریر وتحقیق
امید راؤ امید مڈاڈھ ایڈمن رانگھڑ راجپوت بیٹھک پاکستان










.jpeg)
.jpeg)

.jpeg)
.jpeg)

.jpeg)

